depression ka ilaj in urdu
دور جدید میں جوں جوں انسان ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے قدرتی طرز زندگی سے بتدریج دور ہو رہا ہے. ایسے میں پریشانیاں اور فکریں انسان کو گھیرے رکھتی ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ڈپریشن میں بدل کر زندگی اجیرن بنا دیتی ہیں۔پروفیسر ہانس نورڈال کے مطابق منفی سوچ کو وقت کا زیاں جان کر، حال پر توجہ دیتے
ہوئے اور سوچ کو منتشر ہونے سے بچا کر آپ پریشان کن خیالات کو ذہن سے جھٹک سکتے ہیں اور یوں ایک پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔
ناروے کی جامعہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی میں رویہ جاتی ادویہ (بیہوریئل میڈیسن) کی ماہر پروفیسر ہانس کہتی ہیں کہ ہم اداسی، پریشان خیالی اور فکرمندی کو مسائل کے حل کی ایک راہ سمجھتے ہوئے بار بار ذہن میں لاتے ہیں لیکن اصل میں ہم خود پر تنقید کر کے منفی خیالات سے خود کو ہلکان کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح ہے کہ کسی کے ہاتھ میں تھوڑی دیر تک گلاس ہو تو ٹھیک لیکن مسلسل دو گھنٹے تک گلاس تھامنا ہو تو یہ بہت بھاری اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور اداسی اور پریشان کن خیالات بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جو طویل وقت کے لیے مسلسل ذہن میں ڈیرہ جما کر بھاری بھر کم ہو جاتے ہیں۔
اس فکرمندی اور اداس خیالات سے جان خلاصی کے تین طریقے یہ ہیں:اسے وقت کا زیاں سمجھئےاداس کرنے والےاور پریشان کن خیالات کو سب سے پہلے وقت اور توانائی ضائع کرنا والا سمجھئے۔ پریشان کن خیالات سے جان چھڑانا اتنا مشکل نہیں جتنا نظر آتا ہے لیکن اس سے قبل بعض باتوں کو سمجھنا ضروری ہو گا۔سب سے پہلے تو یہ سمجھئے کہ پریشانی اور اداس خیالی ایک طرح سے وقت اور توانائی ضائع کرنے والی وبا ہے۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی فکر سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان منفی خیالات کو مسائل کے حل کی جانب ایک کوشش سمجھتی ہے لیکن وہ غلطی پر ہیں۔ بار بار منفی اور پریشان کن باتیں سوچنے سے آپ کا پورا مزاج منفی ہو جاتا ہے۔ اب جب بھی ایسے خیالات ذہن میں آئیں تو خود سے ایک سوال کیجئے کہ آخر اس سب کا فائدہ کیا ہےابھی اور اس جگہ پر توجہ رکھیں پریشانی اور فکر کو چھوڑ کر اسی لمحے اور اسی جگہ پر توجہ دیجئے۔
پروفیسر ہانس کے مطابق مایوس کن فکروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان واقعات پر غور کیجئے جو آپ کے اردگرد نمودار ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی آپ حال میں جینے لگتے ہیں اور موجودہ واقعات کے لحاظ سے زندگی گزارتے ہیں آپ کی فکر مندی ازخود غائب ہو جاتی ہے۔ تاہم منفی خیالات بار بار حملہ کر سکتے ہیں لیکن انہیں وہیں چھوڑ دیں اور ہر لمحہ جینے کی کوشش کیجئے۔ان چیزوں سے بچیں جو آپ کے ذہن کو سکون میں نہیں آنے دیتیں اور اسے بھٹکاتی رہتی ہیں۔ پروفیسر ہانس کے مطابق کئی لوگ فکر سے بچنے کے لیے ٹی وی، گیمز اور منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں یہ بھٹکانے والی عارضی چیزیں ہیں اور ان کے سہارے دماغ کو طویل عرصے تک پرسکون نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ ہم اپنی حاجت اور خوشیوں کے لیے دوسرے لوگوں پر بھروسہ رکھیں۔اس کے بجائے آپ مسلسل مشق کر کے منفی سوچوں کو کمزور سے کمزور کرتے جائیں اور حال میں مصروف رہ کر پریشان خیالی سے چھٹکارے کی کوشش کیجئے۔
ناروے کی جامعہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی میں رویہ جاتی ادویہ (بیہوریئل میڈیسن) کی ماہر پروفیسر ہانس کہتی ہیں کہ ہم اداسی، پریشان خیالی اور فکرمندی کو مسائل کے حل کی ایک راہ سمجھتے ہوئے بار بار ذہن میں لاتے ہیں لیکن اصل میں ہم خود پر تنقید کر کے منفی خیالات سے خود کو ہلکان کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح ہے کہ کسی کے ہاتھ میں تھوڑی دیر تک گلاس ہو تو ٹھیک لیکن مسلسل دو گھنٹے تک گلاس تھامنا ہو تو یہ بہت بھاری اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور اداسی اور پریشان کن خیالات بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جو طویل وقت کے لیے مسلسل ذہن میں ڈیرہ جما کر بھاری بھر کم ہو جاتے ہیں۔
اس فکرمندی اور اداس خیالات سے جان خلاصی کے تین طریقے یہ ہیں:اسے وقت کا زیاں سمجھئےاداس کرنے والےاور پریشان کن خیالات کو سب سے پہلے وقت اور توانائی ضائع کرنا والا سمجھئے۔ پریشان کن خیالات سے جان چھڑانا اتنا مشکل نہیں جتنا نظر آتا ہے لیکن اس سے قبل بعض باتوں کو سمجھنا ضروری ہو گا۔سب سے پہلے تو یہ سمجھئے کہ پریشانی اور اداس خیالی ایک طرح سے وقت اور توانائی ضائع کرنے والی وبا ہے۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی فکر سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان منفی خیالات کو مسائل کے حل کی جانب ایک کوشش سمجھتی ہے لیکن وہ غلطی پر ہیں۔ بار بار منفی اور پریشان کن باتیں سوچنے سے آپ کا پورا مزاج منفی ہو جاتا ہے۔ اب جب بھی ایسے خیالات ذہن میں آئیں تو خود سے ایک سوال کیجئے کہ آخر اس سب کا فائدہ کیا ہےابھی اور اس جگہ پر توجہ رکھیں پریشانی اور فکر کو چھوڑ کر اسی لمحے اور اسی جگہ پر توجہ دیجئے۔
پروفیسر ہانس کے مطابق مایوس کن فکروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان واقعات پر غور کیجئے جو آپ کے اردگرد نمودار ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی آپ حال میں جینے لگتے ہیں اور موجودہ واقعات کے لحاظ سے زندگی گزارتے ہیں آپ کی فکر مندی ازخود غائب ہو جاتی ہے۔ تاہم منفی خیالات بار بار حملہ کر سکتے ہیں لیکن انہیں وہیں چھوڑ دیں اور ہر لمحہ جینے کی کوشش کیجئے۔ان چیزوں سے بچیں جو آپ کے ذہن کو سکون میں نہیں آنے دیتیں اور اسے بھٹکاتی رہتی ہیں۔ پروفیسر ہانس کے مطابق کئی لوگ فکر سے بچنے کے لیے ٹی وی، گیمز اور منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں یہ بھٹکانے والی عارضی چیزیں ہیں اور ان کے سہارے دماغ کو طویل عرصے تک پرسکون نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ ہم اپنی حاجت اور خوشیوں کے لیے دوسرے لوگوں پر بھروسہ رکھیں۔اس کے بجائے آپ مسلسل مشق کر کے منفی سوچوں کو کمزور سے کمزور کرتے جائیں اور حال میں مصروف رہ کر پریشان خیالی سے چھٹکارے کی کوشش کیجئے۔
Labels:
Life Tips
No comments: