مشکل حالات کا سامنا کیسے کیا جائے؟
مشکل حالات ہمیشہ نہیں رہتے مگر مضبوط لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ یہ ترجمہ ہے نارمن ونسینٹ پیل کی کتاب ’ٹف ٹایمز ڈونٹ لاسٹ بٹ ٹف پیپل ڈو‘۔ نارمن ونسینٹ پیل ایک بہت مثبت سوچ والا آدمی تھا۔ اس نے اپنی اس کتاب میں سب کو سبق دیا ہے کہ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ کسی طرح کی خوش فہمیوں کا شکار کبھی نہیں ہوتے۔ وہ دنیا کو اور اس کی تلخ حقیقت کو تہہ دل سے قبول کرتے ہیں مگر
کبھی نا امید نہیں ہوتے۔ نارمن کہتا ہے کہ ہر دن کچھ نیا لے کر
زندگی میں داخل ہوتا ہے اور اس سے کچھ نیا سیکھنا چاہیے ہے۔ہر نئے دن کو نئے عزم اور مثبت سوچ کے ساتھ شروع کرنا چاہیے ہے ۔ ہر ایک کی زندگی کسی نہ کسی غم، الم یا پریشانی سے عبارت ہوتی ہے لیکن ان مشکلوں کو اپنی سوچ کا محور نہیں بنانا چاہیے بلکہ ان کو اس سوچ سے دیکھنا چاہیے کہ ان کا حل کیا ہے؟ نارمن ونسینٹ کہتا ہے کہ پریشانیوں کو سر پر سوار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس بات پر توکل کرنا چاہیے کہ کوئی ہم سے بڑی طاقت،
کوئی خدائی قوت ہماری حفاظت کر رہی ہے اور اس کے احکام کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا حل نکالنا چاہیے ہے۔
وہ خود کیونکہ عیسائی تھا، اس لیے وہ ساری باتیں ادھر سے ماخوذ کر کے ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ کیسے کسی اپنے سے بڑی طاقت کے وجود کا احساس انسان کے اندر سکون کا جزبہ اجاگر کرتا ہے۔نارمن کا ماننا ہے کہ انسان کے ساتھ کسی بھی وقت کوئیبھی منفی حادثہ پیش آسکتا ہے مگر یہ اس کے اپنے کنٹرول میں ہے کہ وہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ جو انسان مثبت سوچ اپناتے ہیں وہ اپنی ٹینشنوں کو خود پر ہاوی نہیں ہونے دیتے بلکہ اپنے دل، دماغ اور ہاتھ سے ہر وہ کام کرتے ہیں جو انہیں خوشی دے اور زندگی کے روشن پہلوؤں کی جانب گامزن کرے۔ سچ یہ ہے کہ وہ خود ایک دینی آدمی تھا اور اس کا تجربہ یہی کہتا تھا کہ جو لوگ کسی منصف بڑی قوت پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ زندگی بہت سکون سے گزار سکتے ہیں اور اگر سائیکالوجی کے نظریے سے دیکھیں تو بھی جو لوگ خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے کسی بھی مصیبت میں صبر کر کے مسکرانا سہل ہو جاتا
ہے۔
انسان کو صرف اپنے رزق اور تقدیر کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے،
اگر فلاسفی کے نظریے سے دیکھا جائے تو خوش رہنے کے لیے انسان کو یہ یقین ہونا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کی گئی کوئی بھی نا انصافی رائیگاں نہیں جائے گی۔ کیونکہ انسان چپ کر کے صرف تب برداشت کر سکتا ہے جب اس کو پکا یقین ہو کہ اسے اس کا اجر ملے گا۔ ورنہ تو پورا زمانہ ہر وقت بدلے کی آگ میں جلتا رہے۔ ایتھیسٹ ایسے لوگ ہوتے ہیں
جو کسی خدا کے وجود کے انکاری ہوتے ہیں اور جو انسان بھی زیادہ کامیاب ہو جائے وہ جب حد سے بڑھ جائے اور انتہائی تکبر کا شکار ہو جائے تو وہ خدا کے وجود سے انکار کرنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو اپنی ہر کامیابی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ ناکام ہوتا ہے تو سہارا تلاش کرتا ہے اور اس وقت وہ فطرت سے مجبور ہو کر اپنے خدا کا رخ کرتا ہے۔ نارمن کا یہ خیال تھا کہ ایسے لوگ جو خدا کے وجود پر بھروسہ کر کے اپنی زندگی کے مثبت پہلو پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، وہ اچھی اور پر مسرت زندگی بسر کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کا کسی بھی کام میں کامیاب ہونا بھی زیادہ حد تک ممکن ہوتا ہے۔
Labels:
Life Tips
No comments: