ہر مشکل کا آسان حل
میں اپنے پرانے فارم ہاؤس کی مرمت کروا رہا تھا۔ میں نے کام کے لیے ایک بڑ ھئی کو پیسے دے دیے اور سارا کام سمجھا دیا۔ بڑھئی میرے ساتھ پورا دن فارم ہاؤس کی مرمت میں لگا رہا لیکن اس بیچارے کا برا وقت چل رہا تھا، صبح ایک گھنٹے بجلی چلی گئی اس کا وقت ضائع ہوا،
پھر اس کی بجلی والی آری خراب ہو گئی، اس نے ٹھیک کی، ایک اور گھنٹا ضائع ہو گیا۔آخر میں جب وہ اپنے گھر جانے لگا تو شام میں اس کی گاڑی سٹارٹ نہیں ہوتی تھی۔ اس کا
پک اپ ٹرک اتنا پرانا تھا وہ ویسے بھی مرمت طلب تھا۔ وہ کیسے سٹارٹ ہو
سکتا تھا۔ میں صبح سے اس کی حالت دیکھ رہا تھا۔ مجھے بہت برا لگا میں نے اسے بولا کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے، میں تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ آتا ہوں۔ میں اس کے گھر تک گاڑی لے گیا۔ جب اترا تو تھوڑا تجسس ہوا کہ اس کا گھر کیسا ہو گا ۔
پتہ نہیں کہیں تنہا نہ رہتا ہو، مزید پریشان ہو گا، تو میں اس کو گھر کے اندر تک چھوڑنے پورچ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ اندر جاتے ہوئے ڈرائیو وے میں ایک چھوٹا سا درخت لگا ہوا تھا۔
میں نے دیکھا کہ وہ آدمی کچھ دیر اس درخت کے پاس رکا اور اس کی ایک ایک شاخ کو پکڑ پکڑ کر کچھ لٹکانے لگا۔ لیکن اس کے ہاتھ خالی تھے۔ وہ آدمی مجھے بہت پر اسرار لگ رہا تھا۔ اتنا سنجیدہ مزاج تھا کہ گاڑی میں آتے ہوئے بھی پورے راستے اس نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا تھا۔ خیر جیسے ہی ہم اس کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے دونوں بیٹے چھلانگیں لگاتے ہوئے آگئے اور ایک دم اس کا چہرہ خوشی اور سکون سے روشن ہو گیا۔ اتنا تھکا ہارا ہوا آدمی ایک دم بالکل بدل گیا۔
میں اس کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کے بیوی بچوں کے ساتھ چائے پی اور باہر آگیا۔ جب وہ مجھے گاڑی تک چھوڑنے آرہا تھا تو راستے میں پھر سے وہی درخت آگیا۔ میں نے اس سے پو چھا کہ تم نے اس درخت پر کیا لٹکایا تھا۔ وہ تھوڑا سا شرمندہ ہو گیا اور بولا کہ مجھے یاد نہیں رہا تھا
کہ میرے ساتھ آپ بھی تھے۔ میرا روز کا معمول ہے کہ میں اپنے
گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی ساری ٹینشنز اس پیڑ پر لٹکا دیتا ہوں اور اپنے گھر کے دروازے پر پہنچنے سے پہلے پہلے ہر غم اپنے دل سے نکال دیتا ہوں۔
میں ایک غریب آدمی ہوں اور حالات میرے قابو میں نہیں ہیں۔ روز بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو میرے بس سے باہر ہے لیکن یہ میرا گھر ہے، یہ صرف سکون اور مسرت کا گہوارہ ہے۔ میں اپنی کوئی پریشانی اپنے گھر والوں پر نہیں لادنا چاہتا تو میری عادت ہے کہ میں اپنی پریشانیوں کی پوٹلی ہر روز اس بیچارے پیڑ پر ڈال کر اپنے گھر میں داخل ہوتا ہوں۔ اگر میں سچ بتاؤں تو مجھے اصل میں ایسے لگا جیسے وہ بڑھئی کوئی عجیب سا آدمی تھا اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب میں نے اسے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا، اپنے بچوں سے لپٹتے دیکھا تو وہ ہرگز بھی وہ تھکا ہارا پریشان حال بڑھئی نہیں تھا جس کو میں اپنی گاڑی میں چھوڑنے آیا تھا۔ وہ آدمی اس پیڑ پر اصل میں اپنی ٹینشنز لٹکایا کرتا تھا اور ہر طرح کے بوجھ سے آزاد ہو کر اپنی راتیں اپنی فیملی کے ساتھ بسر کرتا تھا۔
Labels:
Life Tips
No comments: