News Insight

[News%20Insight]grids]

Cricket Schedule

[CricketSchedule][bsummary]

T20 World Cup

[T20%20World%20Cup]][bleft]

IPL 2024

[IPL][twocolumns]

ای او بی آئی میں غیر قانونی اور خلاف ضابطہ بھرتیوں اور ترقیوں کا انکشاف

 کراچی (این این آئی)ای او بی آئی میں غیر قانونی اور خلاف ضابطہ بھرتیوں اور ترقیوں کے انکشافات کے بعد تحقیقات کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہیں آسکی ۔سندھ ہائی کورٹ نے ادارے کے ایک ملازم کی جانب سے دائر آئینی درخواست پر ای او بی آئی کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت عالیہ کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا ہے ۔تمام معاملات کی شفاف انکوائر ی کرنے والی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبران کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ جلد ان کا تبادلہ کردیا جائے گا ۔تفصیلات کے مطابق ای او بی آئی وفاقی حکومت کی وزارت برائے اوور سیز پاکستانی و ہیومن ریسورس ڈیوپلمنٹ کے تحت ایک خود مختار ادار ہے۔ جس میں غریب مزدور طبقہ اور پرائیویٹ ملازمت پیشہ ملازمین کی پینشن کا نظام رائج ہے۔

 باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ ادارہ میں غیر قانونی وخلاف ضابطہ درجنوں بھرتیاں بغیر کسی مروجہ قوانین کے تحت کی گئی ہیں۔ اس بابت ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ایک ذیلی HRکمیٹی نے 2018میں ادارہ کو فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کروانے کی ہدایات جاری کی تھیں بعد ازاں خاقان مرتضی گذشتہ چیئرمین ای ا و بی آئی نے بھی اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے بذریعہ آفس آڑڈر نمبر 190/2018 بتاریخ 24-9-2018ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ جس نے بق ادارہ میں غیر قانونی وخلاف ضابطہ درجنوں بھرتیوں بمع ترقیوں کا انکشاف کیا لیکن رپورٹ میں واضح طور پر کسی بھی ملازم کی نشاند ہی نہیں کی گئی تھی۔ اور نہ ہی ذمہ داران کا تعین کیا گیا۔ اس لئے اس وقت کے چیئرمین نے بذریعہ آفس آرڈر نمبر89/2020بتاریخ18-6-2020ہدایات جاری کیں کہ وفاقی حکومت اور آئین پاکستان 1973کے تحت تمام پوسٹوں کی کوٹہ کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے اور جو لوگ غیر قانونی وخلاف ضابطہ بھرتی یا ترقی یافتہ ہیں ان کا نام واضح کیا جائے مزید براں ذمہ داران کا نام کے ساتھ تعین بھی کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی نے ایک ماہ گزرنے کے باوجود کوئی رپورٹ جمع نہیں کروائی، صورت حال کا اندازہ ہوتے ہی چیئرمین EOBIنے ایک اور کمیٹی بذریعہ آفس آرڈر نمبر 104/2020بتاریخ22-7-2020تشکیل دی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس میں کچھ اہم اور سنیئر پوسٹوں پر فائز افسران جن میں محمد ایوب خان ، ڈپٹی ڈائریکٹر ۔جنرل ، محمد اجمل خان ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل۔ حافظ محمد ثاقب بٹ ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ۔ بلال عظمت خان ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ۔ محمد اشفاق عالم، ڈپٹی ڈائریکٹر ۔عمران محسن ، ڈپٹی ڈائریکٹر ۔ عاصم رشید ، ڈپٹی ڈائریکٹر اور عبدالاحد میمن ، ڈپٹی ڈائریکٹر کے شامل ہونے کے باعث کمیٹی کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں مگر Covid-19کی صورت حال اور اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا کرتے ہوئے کمیٹی نے مورخہ 1-09-2020کو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کردی۔ 

ذرائع کے مطابق یہ رپورٹ 1-9-2020سے3-2-2021تک محمد نعیم شوکت قائم خانی ڈائریکٹر چیئرمین سیکریٹریٹ نے دبا ئے رکھی مگر چیئرمین EOBIکے نوٹس میں آنے پر 4-2-2021کو اس رپورٹ کو HRڈیپارٹمنٹ بھیجا گیا۔ اسی دوران چیئرمین کے ریٹائر ہونے کی وجہ سے اس رپورٹ پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور یہ رپورٹ تاحال التوا کا شکار ہے ۔مگر اسی اثنا میں ادارہ کے ایک ملازم جس کا نام محمود بنی جان بتایا جاتا ہے نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن فائل کی۔ جس کے نتیجے میں معزز کورٹ نے ادارہ کو کوٹہ رپورٹ بمع statemenetجمع کراوانے کی ہدایت کی۔ رپورٹ کے مطابق عبدالاحد میمن نام کا ملازم جوکہ ادارہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ پر تعینات ہے اور فی الحال پر معطل بھی ہے کو ادارہ میں غیر قانونی خلاف ضابطہ بھرتی کیا گیا۔ عبدالاحد میمن نے ادارہ میں interne(law)کی آسامی کیلئے درخواست دی گئی تھی اس میں internee(law)کی ایک بھی پوسٹ شائع نہیں کی گئی تھی۔ مزید براں موصوف وفاقی حکومت اور بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری سے جاری شدہ بھرتی قواعد کی دھجیاں اڑاتے ہوے sindh(U)کی پوسٹ کی غیر موجودگی کے باوجود ایک سال کے دورانیہ کیلئے غیر قانونی طور پربھرتی کئے گئے۔ یاد رہے EOBIمیں نہ ہی internee(law)کو بھرتی کرنے کا کا کوئی قانون موجود ہے اور نہ ہی اس بھرتی کو مستقل کرنے کا۔ بھرتی کے وقت موصوف کے پاس نہ تو متعلقہ تعلیمی قابلیت تھی نہ ہی تجربہ بمع لازمی کورسز۔ موصوف 2003میں ایک سال کیلئے بطور internee(law)بھرتی ہوئے اور خلاف ضابطہ ڈیڑھ سال کے عرصے کیلئے عہدہ پر براجمان رہے۔ذرائع نے بتایا کہ 2007 میں 30اسسٹنٹ ڈائریکٹرز(آپریشنز) کو بھرتی کیا گیا جن میں قواعد کے خلاف 12ملازمین منظور شدہ سیٹوں سے زائد خلاف ضابطہ بھرتی کئے گئے جن میں خالد شاہ، ظہیر الدین طاہر، علی انور جمالی، عبدالماجد مغل، نوید فیاض، ضیاء الرحمن، طارق محمود ،شہزاد یونس، ناصر محمود عارف، مبشر رسول شامل ہیں۔ جبکہ بقایا بھرتیوں میں چھ ملازمین مطلوبہ کورس کے غیر تسلی بخش نتائج اور فیل ہونے کے باوجود غیر قانونی اور خلاف ضابطہ بھرتی کئے گئے جن میں فیصل مرتضی، مزمل کامل ملک، عبدالماجد مغل، عبدالغنی ، کاشف ضیائ، خالد شاہ اور ظہیر الدین طاہر شامل ہیں۔ ادارہ کے قوانین کے مطابق کیڈر کی تبدیلی بھی ممکن ہے۔ مگر 2014میں چیئرمین نے 33میں سے 07ملازمین کا کیڈر غیر قانونی اور خلاف ضابطہ تبدیل کیا کیونکہ اس وقت ان کے کوٹہ کی سیٹیں بھی موجود نہ تھیں ان میں مصطفی غنی، سمیع اللہ خان، اصغر الیاس، محمد علی خان، مرزا عمران بیگ، عبدالسلام اور عزرا اشرف شامل ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ای او بی آئی نے تاحال یہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع نہیں کروائی ہے۔

 یاد رہے کہ ادارہ میں بھرتی قواعد کے تحت بھرتی اور ترقیوں کا عمل کیا جاتا ہے اور سینارٹی قواعد کے تحت ملازمین کی سنیارٹی کا تعین بمع تبدیلی کیڈر کیا جاتا ہے۔ جس کیلئے متعلقہ کوٹہ کی سیٹ کا ہونا ، تعلیمی قابلیت مع تجربہ اور باقی شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے۔ چیئرمین کی بطور مجاز اتھارٹی منظوری کے بنا کوئی بھرتی، ترقی یا کیڈر کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی کے ممبران کے خلاف ادارہ کے اندرونی اور بیرونی اطراف سے محرکات شروع ہوچکے ہیں۔ تاکہ ان کو ہیڈ آفس سے نکالا جاسکے اور کوٹہ کی رپورٹ دینے کی پاداش میں سبق سکھایا جاسکے۔ ان کے خلاف ایک مہم شروع کی جاچکی ہے اور ٹرانسفر کروانے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔

No comments: